16 نومبر 2025 - 16:00
علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ: تعارف و آثار / مختصر تعارف

علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ (1321-1402 ہجری / 1904-1981ء) عصرِ حاضر کے مفسر، فلسفی اور شیعہ محققین میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ آپ تبریز کے مضافاتی گاؤں شاد آباد میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والدہ، اور نو سال کی عمر میں والد کے انتقال کے بعد بھی آپ نے علمی راہ میں ثابت قدمی دکھائی۔ ابتدائی تعلیم تبریز میں حاصل کرنے کے بعد 1344ھ/1925ء کے قریب آپ نجف اشرف تشریف لے گئے جہاں معاصر کے معروف علماء سے مختلف شعبوں میں فیض پایا۔ مالی مشکلات کے باعث 1354ھ/1935ء کے قریب تبریز واپس آ گئے اور تقریباً دس سال تک زراعت سے زندگی کا گذارا کیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ سن 1365ھ/1946ء میں آپ قم مقدسہ تشریف لائے اور باقی زندگی تدریس و تحقیق میں گزار دی۔ یہاں آپ نے فقہ، اصول، فلسفہ، عرفان اور تفسیر پر دروس دیے اور شاگردوں کی تربیت کی۔ علامہ طباطبائیؒ نے ہمیشہ اپنی علمی توانائیاں قرآن مجید اور معارف اہلِ بیتؑ کی خدمت میں وقف رکھی۔ ان کی زندگی علم و عمل، عقل و عشق کا حسین امتزاج تھی۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ منتظریؒ اور امام خمینیؒ سمیت کئی بزرگ علماء نے آپ کے دروس سے فیض حاصل کیا۔ علامہ طباطبائیؒ 18 محرم 1402 ہجری (16 نومبر 1981ء) کو وفات پا گئے اور آپ کو حرم حضرت معصومہٰ سلام اللہ علیہا میں سپردِ خاک کیا گیا۔ آپ کی علمی و فکری میراث آج بھی فکرِ اسلامی میں روشنی کا باعث ہے۔

علمی و فکری آثار

علامہ طباطبائیؒ نے مختلف علمی شعبوں میں مستند اور گرانقدر تصانیف تصنیف کیں۔ ان کی سب سے معروف کتاب "تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن" ہے جو ایک جامع انسائیکلوپیڈیا کی صورت میں قرآن کریم کی گہرائیوں میں روشنی ڈالتی ہے۔ یہ تفسیر (اصل عربی مجموعہ) بیس سے زائد جلدوں پر محیط ہے اور فارسی ترجمے میں تقریباً ۱۲ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی دو مشہور فلسفیانہ کتابیں "بدایۃ الحکمہ" اور "نہایۃ الحکمہ" ہیں جنہیں حوزہ علمیہ میں بنیادی کتب کا درجہ حاصل ہے۔ آپ کی دیگر تصانیف میں "اصول الفلسفہ و روشِ رئالیسم" شامل ہے، جس میں آپ نے ابنِ سینا کی "کتاب الشفاء" اور صدرالدین شیرازی کے "الاسفار" پر مفصل تبصرے پیش کیے ہیں۔

آپ نے عرفان، اخلاق، تاریخِ فلسفہ اور معرفت کے اصول وغیرہ پر بھی مدلل مباحث لکھے۔ آپ کے فکری کاموں کا اہم پہلو یہ ہے کہ آپ نے عقل و وحی، فلسفہ و قرآن اور علم و ایمان کے مابین توازن قائم کیا۔ آپ نے جدید ذہن کے سوالات و اعتراضات کا قرآن و اسلامی فلسفے کی روشنی میں جامع جواب دیا۔ اسی توازن و اعتدال کی وجہ سے علامہ طباطبائیؒ کا کام علمی حلقوں میں انتہائی قدر و منزلت رکھتا ہے۔

تفسیر المیزان پر مختصر تجزیہ

تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ کا وہ شاہکار ہے جس نے قرآن فہمی کا دائرہ وسیع کیا۔ یہ محض لفظ بہ لفظ تفسیر نہیں بلکہ قرآن سے منسلک معارف کا گہرا تجزیہ ہے جو ایک مربوط اور جامع نظام فراہم کرتی ہے۔ آپؒ نے اس تفسیر کی بنیاد "تفسیر القرآن بالقرآن" یعنی قرآن کو قرآن سے سمجھنے کے اصول پر رکھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی ہر آیت کو قرآن کے دوسرے شواہد کی روشنی میں سمجھا جائے۔ آپ کے نزدیک قرآن کا سب سے بہترین مفسر خود قرآن ہے، اسی لیے آپؒ نے آیات کو باہمی ہم آہنگی اور سیاق و سباق کے تناظر میں پیش کیا۔

تفسیر المیزان میں عقلی اور نقلی دلائل کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ہر آیت کی تشریح میں فلسفہ، کلام، تاریخ اور سماجیات سے رجوع کر کے قرآن کا پیغام واضح کیا گیا ہے۔ اس تفسیر میں شعوری پیچیدگی سے گریز کرتے ہوئے معنوی گہرائی برقرار رکھی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں المیزان نہ صرف مکتب تشیع کا فخر ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے بھی ایک علمی تحفہ بن گیا ہے جو قرآن کے زندہ پیغام کو نئے انداز سے پیش کرتا ہے۔

تفسیر المیزان کی نمایاں خصوصیات

تفسیر المیزان کو منفرد و ممتاز بنانے والی خصوصیات درج ذیل ہیں:

تفسیر القرآن بالقرآن کا اصول:

آیاتِ قرآن کو ایک دوسرے کی روشنی میں سمجھنے کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں مشکل متشابہ آیات کی تشریح کے لیے واضح آیاتِ محکمہ کو معیاری قرار دیا گیا ہے، جس سے قرآن کا مربوط نقشہ سامنے آتا ہے۔

عقلی و نقلی توازن:

اس تفسیر میں عقل و نقل دونوں کا بھرپور استعمال ہوتا ہے۔ روایاتِ اہلِ بیتؑ کو اہمیت دی گئی ہے، مگر اس کے ساتھ عقل و استدلال کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ نہ حد سے زیادہ عقل پرستی ہے نہ محض خوابہ قیاس، بلکہ دونوں کا اعتدال رکھا گیا ہے۔

موضوعاتی نظم و ربط: المیزان میں قرآنی موضوعات کو منطقی تسلسل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ہر سورت کا مرکزی خیال واضح ہوتا ہے۔ مترجم الفاظ، صرف و نحو، اشتقاق وغیرہ کے بعد تفسیر آتی ہے، جس سے ہر جزو کا مکمل فہم ممکن ہوتا ہے۔

فلسفی و عرفانی گہرائی:

علامہؒ نے فلسفیانہ اور عرفانی نکات کو بھی قرآنی آیات کے ساتھ مربوط انداز میں بیان کیا ہے۔ پیچیدہ علمی مطالب کو آسان اور مدلل انداز میں پیش کرنے کی خصوصیت اس تفسیر کو باقی تفاسیر سے ممتاز کرتی ہے۔

معاصر چیلنجز کا مدلل جواب:

 تفسیر المیزان میں مغربی فلسفہ، الحاد اور مادیت کے نظریات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ علامہ طباطبائیؒ نے جدید علوم اور مسئلوں کے تناظر میں قرآن کی رہنمائی بیان کی ہے، جس سے یہ تفسیر عصری علوم کے سوالات کا قرآن بھرمیں تسلی بخش جواب بھی فراہم کرتی ہے۔

جامعیتِ محتویٰ:

اس تفسیر میں دیگر تفاسیر، صحابہ و تابعین کی روایات اور علمائے سابقین کے آراء کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس جامع مواد کی بدولت قاری کے سامنے ایک متوازن اور ہر پہلو سے غور شدہ تفسیر پیش ہوتی ہے۔

ان خصوصیات کی بناء پر المیزان کو دورِ جدید کی سب سے جامع اور مستند تفسیر مانا جاتا ہے۔

تفسیر المیزان کا تفسیری اسلوب و طرزِ بیان

علامہ طباطبائیؒ کا تفسیری اسلوب علمی گہرائی، ادبی شائستگی اور عقلی استدلال کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے اسلوب کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

تحقیقی ترتیب: ہر آیت کی تشریح سے پہلے لغوی و ادبی نکات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس میں کلمات کا مطلب، ان کے اشتقاق اور قراتِ مختلف پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ بعد میں آیت کے نزول کا سیاق و سباق بیان کر کے اس کے مفہوم کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ آخر میں عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے معنی واضح کیے جاتے ہیں۔ اس ترتیب سے قاری کو ہر سطح پر آیت کا فہم ہوتا ہے۔

عقل و نقل کی ہم آہنگی: علامہؒ روایاتِ اہلِ بیتؑ کو تفسیر کا اہم رکن مانتے ہیں، لیکن ساتھ ہی عقل و تفکر کو قرآن سمجھنے کی کلید سمجھتے ہیں۔ آپؒ نے ان دونوں ذرائع کو یکساں مقام دیا ہے۔ اس طرح وہ بیک وقت متونِ روایات اور معقول دلائل سے آیت کو کھولتے ہیں، جس سے تفسیر ہر دور کے سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

جدید فکری مباحث سے مکالمہ: علامہ طباطبائیؒ نے المیزان میں موجودہ دور کے فلسفہ، نفسیات اور سماجی علوم کے مسائل کا قرآن کے تناظر میں جواب دیا ہے۔ آپؒ نے مغربی فکر کے نظریات سے پردہ اٹھا کر قرآنی رہنمائی دکھائی ہے۔ اس سے یہ تفسیر زندہ اور مؤثر ثابت ہوتی ہے، جو دورِ جدید کے قاری کے لیے بھی بامعنی رہبری کا ذریعہ ہے۔

علامہ طباطبائیؒ نے المیزان کے ذریعے نہ صرف قرآن کی سمجھ بوجھ میں انقلاب برپا کیا بلکہ قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا عملی طریقہ بھی ہمیں بتایا۔ ان کا پورا کام علم اور عمل کے درمیان حقیقی توازن کا نمونہ ہے، جو ایک مفسر کو علمی محقق و مربی دونوں حیثیتوں میں ممتاز بناتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر : سید فصیح کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha